تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر!
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ، نہ من تیرا نہ تن
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروت حسن عالم گیر ہے مردان غازی کا
کہاں سے تو نے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
دل سوز سے خالی ہے ، نگہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے
عالم ہے فقط مومن جاں باز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے!
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
دل بیدار فاروقی ، دل بیدار کراری
مس آدم کے حق میں کیمیا ہے دل کی بیداری
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے ، باطن میں گرفتاری
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks