زندگی راہ نوردی سے عبارت ہے عدم
موت مفہوم ہے رستے سے گزر جانے کا
گماں ہوتا تھا شاید زندگی پھولوں کا گجرا ہے
گلوں کے اس قدر انبار تھے ، کل شب جہاں میں تھا
اداسی بھی عدم احساسِ غم کی ایک دولت ہے
بسا اوقات ویرانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
لے اگر جھوم کر وہ انگڑائی
زندگی دار پر اٹک جائے
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
وہ فصلِ گل ، وہ لبِ جوئبار یاد کرو
وہ اختلاط ، وہ قول و قرار یاد کرو
جھاڑ کر گردِ غمِ ہستی کو اڑ جاؤں گا میں
بے خبر! ایسی بھی اک پرواز آتی ہے مجھے
کچھ مداوا کرو ماحول کی تاریکی کا
کچھ درخشندہ روایات کی باتیں چھیڑو
ہے یقیناً کچھ مگر واضح نہیں
آپ کی آنکھوں میں کیا موجود ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks