اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے مجھے
دل کی آہٹ سے تری آواز آتی ہے مجھے
چشمِ ساقی کے اشارات کی باتیں چھیڑو
فصلِ گل میں تو کرامات کی باتیں چھیڑو
بانکپن میں اور کوئی شے نہیں
سادگی کی انتہا موجود ہے
ہر محبت کی بنا ہے چاشنی
ہر لگن میں مدعا موجود ہے
خوبصورت تہمتیں چبھنے لگیں
دل نشیں الزام یاد آنے لگے
مسیح و خضر کی عمریں نثار ہوں اس پر
وہ زندگی کی گھڑی جو خوشی سے گزری ہے
کنارے پر نہ کیجئے گا زیادہ جستجو میری
کہ میں لہروں کا متوالا ہوں ، طوفانوں میں رہتا ہوں
میں دانستہ حقائق کی ڈگر سے لوٹ آیا ہوں
میں تفریحاً طرب انگیز افسانوں میں رہتا ہوں
پتہ پوچھے کوئی میرا عدم تو اس سے کہہ دینا
میں سچے اور بھولے بھالے انسانوں میں رہتا ہوں
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks