اس کی رحمت کا آسرا لے کر
آدمی سو خطائیں کرتا ہے
بڑا زمانہ ہوا کسی نے محبتوں کے دئیے جلائے
انھی چراغوں کی روشنی نے بھرم کسی کا رکھا ہوا ہے
مجھے شرابِ طہور کہہ کر وہ زہرِ قاتل پلا رہے ہیں
میں کیا کہوں کن مروتوں نے مری زباں کو جکڑ لیا ہے
سیاہ رات رہ گئی ہے روشنی کے شہر میں
دکھا کے چاند تارے اپنی تاب و تب چلے گئے
وہ کج کلہ جو کبھی سنگ بار گزرا تھا
کل اس گلی سے وہی سوگوار گزرا تھا
کوئی چراغ جلا تھا نہ کوئی در وا تھا
سنا ہے رات گئے شہریار گزرا تھا
ترے بغیر بڑے بے قرار ہیں، آسی
ترا وجود جنہیں ناگوار گزرا تھا
مرا نام آیا ہو گا جب زباں پر
تری آواز بھرّائی تو ہو گی
سرِ رَہ دیکھ کر چھینٹے لہو کے
ہماری یاد بھی آئی تو ہو گی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks