فکر گوشہ نشین ہو بیٹھی
شوقِ آوارگی تلاش میں ہے
صبح دم آج پھر صدا آئی
کوئی ہے؟ جو مری تلاش میں ہے
ان زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے
لوگ قد آور ہو جائیں تو
عنقا ہو جاتے ہیں سائے
ایک لمحے کو نگہ اور طرف بھٹکی تھی
ورنہ ہم صرف تری دید کے دیوانے ہیں
وہ بھی دن تھے جو کیا کرتا تھا خود سے باتیں
آج آسی کے بڑے لوگوں سے یارانے ہیں
آج کے دور کی بات کرو، یہ دور بڑا دکھیارا ہے
عارض و لب، گیسو کے سائے، باتیں ہوئیں پرانی سی
اپنے غم کی دھیمی لے پر
ہے وہ گیت خوشی کے گاتا
ابھی تو ہاریوں کی بیویاں بِکتی ہیں قرضوں میں
ابھی تک بیٹیوں کی عزتیں بٹتی ہیں ٹکڑوں میں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks