وقت نے ایک عجب انداز میں کروٹ لی ہے
فردا کی بستی میں ماضی آن بسا ہے
آسی جی خاموشی آپ کی ٹوٹی کیسے؟
گوشۂ جاں میں ہجر کا پنچھی آن بسا ہے؟
مجھے محسوس کرنے والا اک دل چاہئے تھا
ستم پھر اُس کے شایان و مقابل چاہئے تھا
غمِ ہجرت اٹھانا ہے کوئی آسان ایسا
یہاں پہلے قدم پر ہی بڑا دل چاہئے تھا
پَرِ کاہ موجِ ہوا پہ ہے جو رَواں دَواں
نگہِ پراں کی کمند ڈال، دماغِ دل
اسے خوب میرا خیال ہے، کہ وجود جس کا سوال ہے
یہ اسی نظر کا کمال ہے، کہ ہر آنکھ مجھ پہ جمی رہی
کرچی کرچی ہوتا جاتا ہوں اندر سے
اِس بت خانے میں اک صوفی آن بسا ہے
تجھے بھی چاہئے تھی پردہ داری چاہتوں کی
مجھے بھی خود پہ قابو، جان محمِل، چاہئے تھا
سرِ شام ہے جو بجھا بجھا مرا داغِ دل
دمِ صبح پاؤ گے اطلاعِ فراغِ دل
There are currently 9 users browsing this thread. (0 members and 9 guests)
Bookmarks