نہ کوئی منزل نہ کوئی راہی، نہ راہبر ہے نہ راستہ ہے
جدھر کو جس جس کے جی میں آئی اسی طرف وہ نکل پڑا ہے
اک ایک دانے کو ایک دنیا تڑپ رہی ہے سسک رہی ہے
ادھر خدائی کے دعویداروں نے سارا غلہ جلا دیا ہے
ہم خود اپنے ارمانوں کے قاتل ہیں
ہم پر لگتی ہیں تعزیریں بھی اپنی
آسی جی غم کی اک اپنی لذت ہے
درد کی ہوتی ہیں تاثیریں بھی اپنی
اس شہر کا کیا جانئے کیا ہوکے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا
آباد بڑی دیر سے ہے شہرِ تمنا
اک روز درِ شہر بھی وا ہو کے رہے گا
اِس شہر پنہ کا ہمیں سایہ ہی بہت ہے
سودائے وطن سر پہ ردا ہو کے رہے گا
وعدوں پہ ترے چھوڑ دیا ہم نے بہلنا
اب خونِ جگر رنگِ حنا ہو کے رہے گا
لکھنا ہے مجھے نوحۂ برگِ گلِ یابس
’یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا‘
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks