اک ذرا دوستوں کو جانے دو
زخم دل کے شمار کر لینا
خدا جانے لگاوٹ تھی کہ کیا تھا
وہ مجھ کو دیکھ کر یوں مسکرائے
مرا تفکر غبار سوچیں نکھارتا ہے
کہ میری آنکھوں میں سرخ شبنم اتارتا ہے
حصارِ ظلمت میں کب سے انساں بھٹک رہا ہے
کسی نئے دن کو دورِ حاضر پکارتا ہے
ہوتی رہیں حدود میں غیروں کی بارشیں
ہم حسرتوں سے دیکھتے ابرِ رواں رہے
پتوار جب اٹھا لیا، موجوں کا خوف کیا
چاہے سفینہ پار لگے، درمیاں رہے
تیری یادوں کا اِک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
میرے ارحم! کبھی تو اِس دل میں
ہو ترا خوف جاگزیں تنہا
اہلِ محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks