غم ہزاروں دلِ حزیں تنہا
بوجھ کتنے ہیں اور زمیں تنہا
اپنے پیاروں کو یاد کرتا ہے
آدمی ہو اگر کہیں تنہا
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
خام ہے سجدۂجبیں تنہا
میرے مولا کبھی تو اس دل میں
ہو ترا خوف جا گزیں تنہا
اپنے اطوار سے قطعاً نہیں لگتے پاگل
ہم نے دیکھے ہیں ترے شہر میں ایسے پاگل
زندگی خواب ہے گر، خواب میں سونا کیا ہے
خواب در خواب کی تعبیر سجھائے پاگل
کیا عجب کوئی سزاوارِ وفا بھی نہ رہے
آج کے دور میں اس طور جو بولے، پاگل
کوئی خوف تھا نہ امنگ تھی، وہ جو اپنے آپ سے جنگ تھی
دلِ مضطرب کی ترنگ تھی، دلِ مضطرب میں لگی رہی
وہ تو اُس شام سرِ شہر پنہ
شہر کا درد لکھا تھا میں نے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks