من پاگل جو ساری رات بناتا ہے
لے جاتا ہے دن تصویریں بھی اپنی
ہم نے اپنی قدروں کو پامال کیا
خاک بسر ہیں اب توقیریں بھی اپنی
شعلہ سا وہ لپکا ہے کہستاں میں مکرر
خاشاک کا فرعون فنا ہو کے رہے گا
پھر دشمنِ ایماں نے نئی چال چلی ہے
کہتا ہے کہ وہ بندہ مرا ہو کے رہے گا
پلکوں پر برسات اٹھائے پھرتا ہے
دل بھی کیا سوغات اٹھائے پھرتا ہے
میرا دشمن کرتا ہے تشہیر مری
میری اک اک بات اٹھائے پھرتا ہے
رہنما یوں بھی ہے برہم مجھ پر
راستہ اس سے نہ پوچھا میں نے
کسی کو عشق نے کوئے بتاں میں ڈال دیا
کسی کو عقل نے وہم و گماں میں ڈال دیا
خدا کے پیشِ نظر تھی حفاظتِ آدم
زمیں کو لے کے کفِ آسماں میں ڈال دیا
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks