باہر بھی اپنے جیسی خدائی لگی مجھے
ہر چیز میں تمھاری جدائی لگی مجھے
جانے اس دل کو یہ آداب کہاں سے آئے
اس کی راہوں میں نگاہوں کو بچھاتے رہنا
ایک مدت سے یہ معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا
اے ہوائے موسم ذرا مجھے ساتھ رکھ میرے ساتھ چل
میرے ساتھ میرے قدم نہیں میرے پاس میری نظر نہیں
جیون میں آج تیرے لیے رو نہیں سکا
جیون میں آج رات پرائی لگی مجھے
تم کو معلوم ہے فرحت کہ یہ پاگل پن ہے
دور جاتے ہوئے لوگوں کو بلاتے رہنا
کہیں آرزوئے سفر نہیں، کہیں منزلوں کی خبر نہیں
کہیں راستہ ہی اندھیر ہے کہیں پا نہیں کہیں پر نہیں
میں نے دیکھا دیوانوں کو شام کے بعد
ڈھونڈ رہے تھے ویرانوں کو شام کے بعد
تاریکی پھر سارے عیب چھپا لے گی
لے آنا گھر مہمانوں کو شام کے بعد
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks