ہم تو سمجھے تھے مست ہیں آسی
آپ بھی ہوشیار نکلے ہیں
اے کہ لوہو کو مرے غازہ بنانے والو
یوں چھپانے سے یہ داغ اور نمایاں ہوں گے
گر جنوں طعمۂ منقارِ خِرَد یوں ہی رہا
کوئی فرحاں نہ رہے گا سبھی گریاں ہوں گے
دوستوں نے تیر جب دل میں ترازو کر دئے
ہم نے سب شکوے سپردِ شاخ آہو کر دئے
گلی کوچے لہو سے اٹ گئے ہیں
بس اک جنگل کا رستہ رہ گیا ہے
بڑے تو بند ہو بیٹھے گھروں میں
گلی میں ایک بچہ رہ گیا ہے
ہوئیں اُن سے زمانے بھر کی باتیں
جو کہنا تھا وہ کہنا رہ گیا ہے
تُو ملے غیر سے شاید یہ گوارا ہو تجھے
میں ملوں غیر سے کیسے میں گوارا کر لوں
اہتمام آپ کے سواگت کا بھی کچھ ہو جائے
ٹھہرئیے، ایک ذرا اشک شرارہ کر لوں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks