دِن کے اثرات سرِ شب جو نمایاں ہوں گے
وصل کے خواب بھی آنکھوں سے گریزاں ہوں گے
سایۂ دیوارِ جاناں ظلِ طوبیٰ سے سوا
اُس نے یہ کیا کہہ دیا، الفاظ خوشبو کر دئے
تھا وہ اک یعقوب آسی دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دئے
دمِ ہجرت کہا بچے نے رو کر
مرا ٹوٹا کھلونا رہ گیا ہے
آج پھر مائلِ چشمک ہیں فنا اور بقا
سامنے اپنے وجود اپنا صف آرا کر لوں
فرازِ طور پہ لفظوں کو افتخار ملا
سوالِ شوخ سے بڑھ کر ملا جواب عجیب
ابھی ’اَرِنِی ‘ بھی کہہ پایا نہ زاہد
صدائے ’لَن تَرَانِی ‘آ گئی ہے
جسے ہم نے چھپایا آپ سے بھی
وہ ہر لب پر کہانی آ گئی ہے
تا کوئی حسرتِ تعمیر نہ باقی رہ جائے
آشیاں شانۂ طوفاں پہ بنانا چاہوں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks