اپنے گرد فصیل بنائی خود میں نے
غم تنہائی کے کس سے منسوب کروں
خلا میں کھوئی، خموش، خستہ خمار نظریں
کسی نے میرا خیال چہروں پہ لکھ دیا ہے
بجھ گئے شوق کے شرارے بھی
برقِ ناوک بھی تند خو نہ رہی
دشت میں وہ سکوں ملا آسی
کچھ تمنائے کاخ و کو نہ رہی
دور کہیں سے رونے کی آواز آئی
اے دل، یہ صدمے کس سے منسوب کروں
روشنیوں کا قاتل کس کو ٹھہراؤں
قاتل اندھیرے کس سے منسوب کروں
ہو گیا بے نیازِ سینہ دل
جامے کو حاجتِ رفو نہ رہی
نا امیدی سی نا امیدی ہے
آرزو کی بھی آرزو نہ رہی
اس کی سرمستئ نظر کے طفیل
حاجتِ ساغر و سبو نہ رہی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks