بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم
اے زمیں تو اس اندھیرے کا ستارہ ہے کہ ہم
اس نے پوچھا تھا کہ سر بیچنے والا ہے کوئی
ہم نے سر نامۂ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم
عمر بھر ہم سے وہ اک حرف کی دوری پہ رہے
اور نہ سیکھا ہنرِ عرض گزاری ہم نے
شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے
نظر میں رنگ تمھارے خیال ہی کے تو ہیں
یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں
کہا تھا تم نے کہ دیتا ہے کون عشق میں جان
سو ہم جواب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں
پتھر تھے کہ گوہر تھے، اب اس بات کا کیا ذکر
اک موج بہر حال بہا لے گئی ہم کو
تم کیسے گرے آندھی میں چھتنار درختو؟
ہم لوگ تو پتّے تھے، اُڑا لے گئی ہم کو
تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
There are currently 8 users browsing this thread. (0 members and 8 guests)
Bookmarks