بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار
اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے
جو دیکھئے تو نہ تیغِ جفا، نہ میرا ہاتھ
جو سوچئےتو کہیں زیرِ سنگ سا کچھ ہے
پھر چھوڑ دیا ریگِ سرِ راہ سمجھ کر
کچھ دور تو موسم کی ہوا لے گئی ہم کو
وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
پھر اس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
دکھا رہا ہے کسے وقت ان اگنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں، تو پھر یہ سب کیا ہے
میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ
اس کے حلقوں میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے، اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کم بخت
اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks