حلقۂ بے طلباں رنجِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے کوچ کی تیاری کیا
اجنبی دھوپ میں جلتے ہوئے رشتوں کے شجر
گھر کے آنگن میں مناجات کا پودا روشن
سرپھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں
پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن
کل کی دنیا کی بنا ڈال رہا ہے کوئی
ننھے ہاتھوں میں ہے مٹی کا گھروندا روشن
میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
اب ڈھونڈ اور قدر شناسانِ رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا
کسی نے دیکھے ہیں پت جھڑ میں پھول کھلتے ہوئے
دل اپنی خوش نظری میں روانہ ہو گیا ہے
ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی میری نمود
میں خاک ہوں، ہنرِ کوزہ گر پہ راضی ہوں
گر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں
شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اُس نے
There are currently 7 users browsing this thread. (0 members and 7 guests)
Bookmarks