تیرے بغیر بھی غمِ جاں ہے وہی کہ نہیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نہیں ہوئی
یاقوت لب تو کارِ محبت کا ہے صلہ
اُ جرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی
کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو جیئے
اب تک تری طرف سے شروعات نہیں ہوئی
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کر آیا
میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا
تو نے کیا سوچ کے اس شاخ پہ وارا تھا مجھے
دیکھ میں پیرہنِ برگ بدل کر آیا
شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمھارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر جام و در یا اخی
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks