حریف تو سپر انداز ہو چکا کب کا
درونِ ذات مگر محوِ جنگ سا کچھ ہے
اس شہر میں گارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو
دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبارِ شب کیا ہے
میں اپنے چہرے سے کس طرح یہ نقاب اٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ
خواب کی طرح کبجی خواب کی تعبیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لئے
اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ
وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں
آج اس شوخ کو نزدیک بلا کر دیکھیں
ایک جیسے ہیں سبھی گلبدنوں کے چہرے
کس کو تشبیہہ کا آئینہ دکھا کر دیکھیں
کیا تعجب کوئی تعبیر دکھائے دے جائے
ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks