تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا
اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا
یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سب تری دین ہے۔۔۔ یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دامن میں تو اے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا
ہو چکا جو کچھ وہی بار دگر کرنا مجھے
پانیوں میں راستہ، شعلوں میں گھر کرنا مجھے
دھیرے دھیرے ختم ہونا سر کا سودا، دل کا درد
رفتہ رفتہ ہر صدف کو بے گہر کرنا مجھے
کسی افق پہ تو ہو اتصالِ ظلمت و نور
کہ ہم خراب بھی ہوں، اور وہ خوش خصال بھی آئے
سخن میں کب سے ہے روشن یہ کیا ضروری ہے
کہ وہ ستارۂ مطلع مثال بھی آئے
ہمیں عطیۂ ترکِ طلب قبول نہ تھا
سو ہم تو اس کی عنایت ہی خاک ڈال بھی آئے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks