مثل شعلوں کے لَو دے اٹھے جو بہ سطحِ نظر آپ نے
پیرہن وہ بدن پر سجایا نہیں ہم نہیں بولتے
وہ کہ جو جھانکتا تھا بہاروں سے بھی چاند تاروں سے بھی
جذبۂ دل وہ کیسے ٹھکانے لگا سوچنا چاہیے
بندش سی کیا یہ دِید پہ، باہم ملن پہ ہے
جادو کوئی جگاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
طوف سے سرو قامت کے کب تک ہمیں باز رکھے گا تو
دور رکھتا ہے پھُولوں سے کیوں تتلیاں دیکھ ایسا نہ کر
چہرے پر چہرہ ہم نے پہچان لیا
جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا
نارسائی کی کثرت نے ہم کو دلائے حجاب اس قدر
چھیڑتی رہ گئی آنچلوں کی ہوا ہم نہ کچھ کہہ سکے
ہر سو ہیں خوشبو کے ریلے ،ہیں جس میں رنگوں کے میلے
عیش مناتی اس دنیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
میرے حق میں ہیں جن جن کی بیداریاں
سب کے سب ایسے جذبے سُلا دیکھیے
کبھی ابر میں ،کبھی چاند میں، کبھی پھُول میں
سرِگردش مہ و سال ہے تجھے دیکھنا
There are currently 5 users browsing this thread. (0 members and 5 guests)
Bookmarks