بندھنوں سے بغاوت، قیامت کا باعث نہ ٹھہری کبھی
جس طرح کا ہے، رہتا وہی آسماں کچھ بگڑنا نہ تھا
رنگ گھُلیں جب بھی پُروا میں یاد بہت آتے جو جاناں
پھُول کھلیں جب بھی بگھیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
زر و نقدِ راحت تمہی پر لٹاتا تم آئے تو ہوتے
نجانے یہ دل جشن کیا کیا مناتا تم آئے تو ہوتے
کھینچے جو اپنی سمت اُنہیں بھی جو دُور ہیں
ایسا بھی کوئی پھُول سرِ لب کھِلائیے
دیر اتنی تھی مائل ہوئی جب صبا تیرے الطاف کی
صحنِ خواہش کے ہر کنج میں جا بجا پھول کھلنے لگے
اوس پڑی جب پھُولوں پر ہو، قوس دھنک کی پیشِ نظر ہو
برکھا کی نمناک ہو امیں یاد بہت آتے ہو جاناں
سبزہ و گل کو اپنا پتا دیجیے
تم بھی جاناں! ذرا مسکرا دیجیے
کھٹکا یہی تو تجھ سے مجھے ابتدا سے تھا
جانا ں!تجھے بھی کھینچ نہ لے جائے دَھن کی باس
اب کے بھی چاند چہرہ دکھایا نہیں ہم نہیں بولتے
آپ نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ہم نہیں بولتے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks