بھرم مرا نہ گنواتے اگر بُرا کیا تھا
بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا
تمہارے روٹھ کے جانے سے جو ہوا برپا
وہ حشر تم نہ اٹھاتے اگر بُرا کیا تھا
وہ ہمِیں ہیں جو اُتریں گے جاناں !ترے اوجِ معیار پر
کاوشِ شوق ہونے نہ دے رائیگاں دیکھ ایسا نہ کر
پھر کہاں کی خزاں تیری خاموشیاں جب چٹکنے لگیں
دفعتاً سن کے سندیس وجدان کا پھُول کھلنے لگے
اور بھلا اِس مشکل کا حل کیا ہوتا
یاد اُجالا چہرۂ شب پر تان لیا
تیرے حسن کا سونا ہاتھ نہیں آیا
ہم نے چاہت کا صحرا بھی چھان لیا
چاہتا ہوں کہ تو مجھ سے رُوٹھا نہ کر
غیر کے روبرو مجھ سے رُوٹھا نہ کر
آگ پہلے دکھائی مری آس کو
اور اُسے دی ہوا، تم تو ایسے نہ تھے
دیکھنا دیکھنا اک نظر دیکھنا
میر ے ہونٹوں پہ رقصاں شرر دیکھنا
There are currently 3 users browsing this thread. (0 members and 3 guests)
Bookmarks