شاہوں ساجو دیکھا بھی تو ہے کم ہمیں دیکھا
بادل نے جہاں بھی کہیں بے نم ہمیں دیکھا
زیر کرتی ہے ہمیں ہی دانشِ اہلِ ریا
جو بھی دَور آتا ہے صیدِ مُفسداں ہم آپ ہیں
اِک ذرا سی جس کو دانائی و عّیاری ملی
رہنما وہ اور جیشِ ابلہاں ہم آپ ہیں
دھند چھٹتی ہے تو پھر اِک دھند چھا جانے لگے
کھُل نہیں پاتا یہی ماجدؔ کہاں ہم آپ ہیں
٭٭٭
جس نے دی عمر مجھے، وام ہی، چاہے دی ہے
وہ سخی مدِّ مقابل ہو تو کیا کیا مانگوں
جس پہ ٹھہرے نہ کوئی چشمِ تماشا ماجدؔ
لفظ در لفظ وہ معنی کا اُجالا مانگوں
غیر پر اتنا اعتبار نہ کر
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گل پریشاں ہوا مہک کھو کر
حالِ دل تو بھی آشکار نہ کر
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
جویائے تعبیر رہے وہ خواب میں قامتِ بالا کی
بَونے کی یہ خُو ہے سوتے میں بھی وہ اِٹھلاتا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks