کھنچ رہا تھا پرندہ قفس سے نکل کر قفس کی طرف
تھی نہ قابل یقیں کے جو ایسی خبر آنگنوں میں ملی
پو پھٹے پر بھی ماجدؔ نہ لے نام ٹلنے کا، آسیب سی
دہشتِ جبر جو شب کے پچھلے پہر آنگنوں میں ملی
حرفِ حق منہ پہ جو ہے، اُس کی پذیرائی کو
پیشِ فرعون، خدا سے یدِ بیضا مانگوں
میں گیا وقت جا چکا ہوں، مرے
لوٹ آنے کا انتظار نہ کر
تُو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو بُری ہے جو اِختیار نہ کر
فضا کا زہر ہی تریاق ہے تو پینے دے
مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دے
فضا کا زہر ہی تریاق ہے تو پینے دے
مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دے
ایک دن سچ کہ جو ہے زیر، زبر بھی ہو گا
ایک دن گائیں گے دشمن بھی ترانے میرے
کس کس کے لئے تھا وہ سبب راحتِ جاں کا
اب ذکر بھی جس شخص کا چھالا ہے زباں کا
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks