ضبط کے ہاتھوں پھٹی پھٹی لگتی تھیں جتنی آنکھیں تھیں
اور سکوت لبوں کا سینے سینے کا کہرام لگا
وقت نہ پھر ہاتھ آئے گا ایسا اے صاحبِ بینائی
بول کوئی بولی اور ہم سارے اندھوں کے دام لگا
شہ بہ شہ اِک کھیل برپا ہے جہاں ہم آپ ہیں
اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں
حرف کی توقیر ہے، زور آوری پر منحصر
مقتدر ہی معتبر ہے بے زباں ہم آپ ہیں
صحنِ امروز میں بچپن کا اُجالا مانگوں
تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں
جو بھی دیکھے اُسے صنّاع مرا، یاد آئے
میں سرِ خاک بس ایسا قدِ بالا مانگوں
یہ ہم کہ غیر ہیں با وصفِ دعویٰٔ وحدت
جو راز دان ہوں باہم، ہمیں وہ سِینے دے
فن میں بیٹھے ہیں بہت ٹھیک نشانے میرے
ختم ہوں گے نہ جب آئیں گے، زمانے میرے
اِس خطا پر کہ مجھے ناز ہے، پرواز پہ کیوں
آخرش کاٹ دئیے پر ہی، ہَوا نے میرے
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks