Originally Posted by intelligent086 جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں صرف اِس تکبُّر میں اُس نے مجھ کو جیتا تھا ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نا رساؤں میں کوچ کی تمنّا میں پاؤں تھک گئے لیکن سمت طے نہیں ہوتیپیارے رہنماؤں میں اپنی غم گُساری کو مشتہر نہیں کرتے اِتنا ظرف ہوتا ہے دردآشناؤں میں اب تو ہجر کے دُکھ میں ساری عُمر جلنا ہے پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاؤں میں ساز ورخت بھجوا دیں حدِّ شہر سے باہر پھر سُرنگ ڈالیں گے ہم محل سراؤں میں *** Nice Sharing ...... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ...... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks