جگنوؤں کی شمعیں بھی راستے میں روشن ہیں
سانپ ہی نہیں ہوتے ذات کی گپھاؤں میں

صرف اِس تکبُّر میں اُس نے مجھ کو جیتا تھا
ذکر ہو نہ اس کا بھی کل کو نا رساؤں میں

کوچ کی تمنّا میں پاؤں تھک گئے لیکن
سمت طے نہیں ہوتیپیارے رہنماؤں میں

اپنی غم گُساری کو مشتہر نہیں کرتے
اِتنا ظرف ہوتا ہے دردآشناؤں میں

اب تو ہجر کے دُکھ میں ساری عُمر جلنا ہے
پہلے کیا پناہیں تھیں مہرباں چتاؤں میں

ساز ورخت بھجوا دیں حدِّ شہر سے باہر
پھر سُرنگ ڈالیں گے ہم محل سراؤں میں

***



Similar Threads: