Originally Posted by intelligent086 گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو کوئی وجود محبّت کا استعارہ ہو میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں ، کہیں مل لیں یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا کہیں ہوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو اُفق تو کیا ہے، درِ کہکشاں بھی چھُو آئیں مُسافروں کو اگر چاند کا اشارہ ہو میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہوا *** Nice Sharing ...... Thanks
Originally Posted by Dr Danish Nice Sharing ...... Thanks
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks