دل میں نظر آتی نہیں ایک بوند لہو کی کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے ؟ یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کِسو کی صد حیف ! وہ نا کام کہ اک عمر سے ، غالبؔ حسرت میں رہے ، ایک بتِ عربدہ جو کی دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
Bookmarks