65
واں پہنچ کر، جو غش آتا پے ہم ہے ، ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
دل کو میں ، اور مجھے دل، محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم، ہے ہم کو
ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل، کہ کچھ امّید بھی ہو
یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو
رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالۂ مرغِ سحر، تیغِ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے ، جو، وعدے کو مکرّر چاہا
ہنس کے بولے کہ"ترے سر کی قسم ہے ہم کو"
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ ولیکن ناچار
پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ" بزمِ طرب آمادہ کرو"
برق ہنستی ہے کہ" فرصت کوئی دم ہے ہم کو"
تم وہ نازک کہ" خموشی" کو" فغاں " کہتے ہو
ہم وہ عاجز، کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث، نہیں کھلتا، یعنی
ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ، ہم کو
طاقتِ رنجِ سفر، بھی نہیں پاتے ، اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی، الم ہے ہم کو
مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے ، یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ، ایک توقّع، غالبؔ!
جادۂ رہ، کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
Similar Threads:
Bookmarks