وعدۂ سیرِ گلستاں ہے ، خوشا! طالعِ شوق

مژدۂ قتل مقدّر ہے ، جو مذکور نہیں
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ، ہے دریا، لیکن
ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں
حسرت! اے ذوقِ خرابی! کہ وہ طاقت نہ رہی
عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں
ظلم کر، ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو
تُو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے ! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجّت ہے ، کہ مشہور نہیں




Similar Threads: