61
دیوانگی سے ، دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جیب میں ایک تار بھی نہیں
دل کو، نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا، تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
گنجایش عداوتِ اغیار، یک طرف
یاں دل میں ، ضعف سے ، ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے ، خُدا کو مان
آخر، نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں ہے ، یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حال آنکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے ، اے خُدا؟
لڑتے ہیں ، اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے ، سر، وبالِ دوش
صحرا میں ، اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے ، تو ہشیار بھی نہیں
Similar Threads:
Bookmarks