تابشِ حسن سے یہ رنگ ہے میخانے کا
دل دھڑکتا ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
چشمِ ساقی ہے اُدھر اور مرا دل ہے اِدھر
آج ٹکراؤ ہے پیمانے سے پیمانے کا
واعظِ شہر نے کیوں بیعتِ ساقی کر لی
اُس نے تو عہد کیا تھا مجھے بہکانے کا
زاہد و رند میں ایسی کوئی دوری تو نہیں
فاصلہ ہے ، تو چھلکتے ہوئے پیمانے کا
شیخ صاحب کبھی اپنوں کی طرح آ کے پئیں
مرتبہ غیر پہ کھلتا نہیں میخانے کا
پیرِ میخانہ ! تری ایک نظر کافی ہے
میں طلب گار نہ شیشے کا نہ پیمانے کا
ایک دو جام سے کیا پیاس بجھے گی ساقی !
سلسلہ ٹوٹ نہ جائے کہیں پیمانے کا
وہ بہار آئی نصیر اور وہ اٹھے بادل
بات ساغر کی چلے ، ذکر ہو میخانے کا
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks