ساگر دیوتا
کہوتم کہاں ہو
مرکبصداؤں کے ریلے میں
تم کوپکاروں کہ خود کو صدا دوں
عجبنم زدہ سلوٹوں میں گھری زندگی ہے
زمیںایک آبی عمل سے گزر کر
مدورہو ئی ہے
چٹانوںکے نیچے بھی، اندر بھی
خوابیدہبل دار آبی چٹانیں
شبارتقا کی عجب داستانیں
بدنکی پہاڑی میں خفتہ
نمکاور چونے کی کانیں
نمیچاٹتے ریگ زاروں کی سوکھی زبانیں
سیہسنگ آہن ربا اور سنگ ستارہ
جزیرے، ڈھلانیں
حجراور جل کھور مٹی کے تودے
خراطین، پھل، پھول، پودے
پتاور، سماروغ، تالوس
جلناگ، سیلا
شکندار اصداف، سرطان، کچھوے
سمکاور بگلے ۔۔
مگرتم کہاں ہو
تمہیںڈھونڈتے ہیں مرے خواب کب سے
میںصدیوں کے ساحل پہ تنہا
تمہارےجنم روپ، ساروپ کا منتظر ہوں
مجھےپھر سے وہ زندگی دو
جسےمیں نے اپنے بدن سے جدا کر دیا تھا
زمینوں، زمانوں کی خواہش سے آگے
فقطایک آبی ردا کر دیا تھا
٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks