بتامیری آنکھوں کی ازلوں میں ٹھہرے ہوئے نم
تجھے کن زمانوں کی نیندوں نے گھیرا ہواہے
کسیدرد کی سرزمیں پر
خدابارشیں رو رہا ہے
کہیںایک آنسو مرا
اس کی پلکوں پہ کیوں رک گیاہے بتا ساحلوں کی ہوا
کونسے شہر میں وہ مرا راستہ دیکھتی ہے
وہ جسنے سمندر کے بھیگے سفر میں کہا تھا
محبتجزیرہ ہے، دکھ بادباں ہے
بتامجھ کو اسم رہائی
میں رسم جدائی ادا کر کے
سنگیںستونوں کی لمبی قطاروں میں اس سے ملوں گا
اسےبازوؤں میں سمو کر
فقطایک بوسے کے بدلے
زمینوںکی ساری مسافت اسے سونپ دوں گا
بتاروشنی کے نشاں
پانیوںمیں چھپی سر بریدہ چٹانوں کی آبی شبیہیں
ابدکے کناروں پہ سوئی ہوئی بوڑھی صدیوں کیتجرید ہیں
یاکسی داستانی سفر میں
جہازوںکے چپو چلاتے
غلاموںکی بے عکس چیخوں کی تجسیم ہیں
وقتکی آخری حد پہ اڑتے طلسمی پرندے
بتاوہ کہاں ہے
جسےیاد کر کے
عتیقیصداؤں کے مستول دل میں اترنے لگے ہیں
بتااے زمینی ستارے
مسافرترے خواب کیوں دیکھتے ہیں
٭٭٭



Similar Threads: