مرگ پیچ




مجھکو اپنی موت کی دستک نے پاگل کر دیا ہے
دوڑتا پھرتا ہوں سارے کام نپٹانے کی جلدیہے ۔ ۔ ۔ ۔
پہاڑوں اور جھیلوں کی خموشی سےقدیمی گیت سننے ہیں،
پرانے داستانی بھیدلینے ہیں

درختوں سے نمو کاری کی بابتپوچھنا ہے
نت نئی شکلیں بناتے بادلوں کودیکھنا ہے
خوش نوا اچھے پرندوں سے
اُڑنپھل کا پتا معلوم کرنا ہے
عروسی بیل کےپھولوں کو چھونا ہے
در و دیوار سے باتیںبھی کرنی ہیں
ابھی کتنے ملاقی منتظر ہیں
ایک لمبی لسٹ ہے آنکھوں میں نادیدہ نظاروںکی
فشارخون بڑھتا جا رہا ہے
اب کسی لمحے رگیںپھٹنے کا خطرہ ہے
مگر مصروف ہوں،
سب کامنپٹانے کی جلدی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
سمندر نے بلایاہے
جزیرے اور ساحل بھی
کئیقرنوں سے مجھ کو یاد کرتے ہیں
مچھیرے گیتگاتے، بستیوں کو لوٹتے
مجھ کو بہت ہی ہانٹکرتے ہیں
کسی دن جاؤں گا ملنے ۔ ۔ ۔ ۔
خزانوںکو اگلنے کے لیے
بےتاب ہیں رقبے
طلسمی سرزمینوں کے سفر کےراستے معلوم ہیں
نقشے پرانے کاٹھ کے صندوقمیں محفوظ ہیں
سب دیو بانی بھی سمجھتا ہوں
مگرمصروف ہوں ۔ ۔ ۔ ۔
بچوںکے کتنے کام باقی ہیں
کتابیں، کاپیاں، اسکول کے کپڑے،
نئے بستے کھلونے، بیٹ، ریکٹ اور بہت سی ان کہی چیزیں
خریدوںگا تو خوش ہوں گے
مگرمصروف ہوں،
سب کام نپٹانے کی جلدی ہے ۔ ۔۔ ۔
رگوں میں خون کی رفتار بڑھتی جا رہیہے
زندگی پر اک جنون مرگ طاری ہے
بہتمصروف ہوں
سر پٹلکھے جاتا ہوں نظمیں
مجھ کو اپنی موت کیدستک نے پاگل کر دیا ہے
٭٭٭




Similar Threads: