Originally Posted by intelligent086 مری رفیق ِ طرب گاہ ، تیری آمد پر نئے سروں میں نئے گیت گائے تھے میں نے نفس نفس میں جلا کر اُمید کے دیپک قدم قدم پہ ستارے بچھائے تھے میں نے ہوا سے لوچ ، کَلی سے نکھار مانگا تھا ترے جمال کا چہرہ سنوارنے کے لئے کنول کنول سے خریدی تھی حسرتِ دیدار نظر نظر کو جِگر میں اتارنے کے لئے بہت سے گیت چھلکتے رہے اُفَق کے قریب بہت سے پھول برستے رہے فضاؤں میں الجھ الجھ گئیں مجروح زیست کی گرہیں بکھر بکھر گئیں انگڑائیاں خلاؤں میں میں پوچھتا ہوں کہ اے رنگ و نور کی دیوی علاج ِ تیرہ شبی کیا اِسی کو کہتے ہیں ! بجھے بجھے سے یہ مفلس دیئے نہ جانے کیا سُلگ سُلگ کے تری بےحسی کو کہتے ہیں یہ گیت سر بگریباں ہیں تیرے جانے سے یہ تو عروس ستارے بڑھا رہے ہیں سہاگ کلی کلی کو تری بےرخی کا شکوہ ہے نفس نفس سے نکلتی ہے ایک ایسی آگ جسے بھجاؤں تو دل زمہریر ہو جائے ترا عظیم تصور حقیر ہو جائے ٭٭٭ Umda Intekhab Sharing ka shukariya
Originally Posted by BDunc NIce one Originally Posted by Dr Danish Umda Intekhab Sharing ka shukariya پسندیدگی کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Forum Rules
Bookmarks