Khobsurat Intekhab
ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
جیسے جبیں کی لوح سے تقدیر کھو گئی
پلکوں پہ آنسوؤں کے دئیے ڈھونڈتے رہے
آنکھوں سے پھر بھی خواب کی تعبیر کھو گئی
کیا تھا شکوۂ قصر پتہ ہی نہ چل سکا
ملبے کے ڈھیر میں کہیں تعمیر کھو گئی
دن رات کی تہوں میں خد و خال دب گئے
اوراق وقت میں تیری تصویر کھو گئی
زندان تعلقات کا قائم نہ رہ سکا
قیدی ملا تو پاؤں کی زنجیر کھو گئی
یہ غم نہیں جبین شکن در شکن ہے کیوں
شکنوں کے بیچ میں میری تقدیر کھو گئی
حالانکہ یہ دعا تھی مگر مانگتے ہوئے
ایسے لگا کے ہاتھ کی توقیر کھو گئی
بندھن بندھے ہوئے تھے سبھی کھل گئے عدیمؔ
مجھ سے تعلقات کی زنجیر کھو گئی
Share karne ka Shukariya
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks