کچھ جو انہیں مجھ سے حجاب آ گیا

میری اُمیدوں پہ شباب آ گیا


آ گئی ہونٹوں پہ جنوں کی ہنسی
جب کوئی باحالِ خراب آ گیا

تیز خرامیِ محبت نہ پوچھ
آنکھ جھپکتے ہی شباب آ گیا

عشق کی بے گانہ روی کے نثار
حسن کو اندازِ عتاب آ گیا

اُٹھنے لگی پھر وہ نظر مست مست
دور پھر جامِ شراب آ گیا

دیکھئے تقدیر کا لکھا شکیل
لیجئے وہ خط کا جواب آ گیا




Similar Threads: