باعثِ ننگِ محّبت کی پذیرائی ہے
انکو ہر گام پہ اندیشۂ رسوائی ہے
ہم بھی دیکھیں گے کہاں تک غمِ تنہائی ہے
ہم نے بھی ترکِ محّبت کی قسم کھائی ہے
آپ رسوائی کے ڈر سے نہیں ملتے ہیں تو کیا
لیکن اب مِل کے نہ ملنے میں بھی رسوائی ہے
جذبۂ عشق کہاں ہستیِ موہوم کہاں
تیری نظروں کی یہ سب حوصلہ افزائی ہے
جی رہا ہوں نگہِ ناز کی جنبش پہ شکیلؔ
زیست آئینۂ اعجازِ مسیحائی ہے
Similar Threads:
Bookmarks