اسرافیل کہاں ہے
بستیوں میں ظلم کا پرچم کُھلا
لوگ پھر اندھے سفر کی راہ میں حائل ہوئے
پھر طلسمِ بابِ شہرِ غم کُھلا
پھر بدن سڑکوں پہ گرتے خوں سے اپنی کشمکش کی داستاں لکھنے لگے
چوک دشتِ ہول کا منظر بنے
مر مریں بانہوں میں ٹوٹی چوڑیوں کی کرچیاں اُتریں
تو سینے یاد کے محشر بنے
پھر کئی ماؤں کی آنکھیں زینتِ در ہو گئیں اور منتظر کانوں میں
کھوئی آہٹوں کے گھر بنے
آرزو کے راستے پتھر بنے
جبر کی منزل میں ہے ! ۔۔۔۔۔ہر ایک شے
کیوں زمیں پھٹتی نہیں اندھیر ہے
آسمانو ، دیکھتے ہو کس کا منہ
کیا دیر ہے
کوہسارو روئی کے گالے بنو
اور اے سمندر ، ساحلوں کے باب سے باہر نکل
نقشِ فردا ۔ خواب سے باہر نکل
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote

Bookmarks