آج
یہ" آج" جو کل میں زندہ تھا
وہ "کل" جو آج میں زندہ ہے
وہ "کل" جو کل کے ساتھ گیا
وہ "کل "جو ابھی آئندہ ہے
گزر چکے اور آنے والے جتنے "کل" ہیں ,جتنے "کل" تھے
ان کا کوئی وجود نہ ہوتا
ہم اور تم بے اسم ہی رہتے
آج" اگر موجود نہ ہوتا"
ممکن ہے" آئندہ" صرف اک خواب ہو جس کی
تعبیروں میں جینے والی ساری آنکھیں ڈوب چکی ہوں
(لیکن وہ خود بجھ کر بھی رخشندہ ہو!)
ہو سکتا ہے
رفتہ" کی دہلیز پہ ٹھہری"
بھید بھری اس آنکھ کے اندر
چھپا ہوا آئندہ ہو
آئندہ "کے منہ پہ پڑی یہ غیب کی چادر"
اُٹھ جائے تو ہو سکتا ہے
اس میں ہمارا اور تمہارا
ایک اک لمحہ زندہ ہو
(روشن اور تابندہ ہو)
لیکن یہ بھی دھیان میں رکھنا
ہو سکتا ہے آنے والے کل میں ہمارا" آج" نہ ہو
اور اُس کی جگہ
اک ایسے وقت کا سایہ سا رقصندہ ہو،جو
ماضی حال اور مستقبل کے
تین کناروں والے اس دریا سے یکسر باہر ہو
(اور کہیں سے جنم ہو اس کا.... اور کہیں پہ ظاہر ہو)
ماضی حال اور مستقبل!
تین کناروں والے اس دریا کے اندر
اپنی اپنی موجیں مارتے چلتے ہیں
پھر اُس لہر میں ڈھلتے ہیں
جو صبحِ ازل کو اُچھلی تھیاور اب تک کہیں معلق ہے
اُسی معلق لہر کے بے خود قطرے ہیں ہم
ہم اور ہم سے اربوں ،کھربوں
(گزر چکے اور آنے والے)
سو اے وقت کی حیرت میں کھو جانے والی آنکھ ۔۔ٹھہر
آج" کے پُل پر رُک کر آگے پیچھے دیکھ"
روشنی اور تاریکی شاید، ایک ہی ڈال کے پتے ہیں
لمحوں کا یہ فرق نظر کا دھوکہ ہے
وقت کی اس "ناوقتی" کے سیلاب میں ۔۔شاید!
"آج" ہی واحد لمحہ ہے!!
عُمرِ رواں کی دہشت میں کھو جانے والی آنکھ ٹھہر
Similar Threads:
Bookmarks