دشتِ طلب
درِ طلسمِ صدا کھلے تو اُسے پُکاریں
کہ اُس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا قبول رد ہے
اُسے دکھائیں کہ کتنے بادل
ہمارے کھیتوں سے بے تعلق نکل گئے ہیں
اُسے بتائیں کہ کتنی کلیاں
کشاد ہونے کی آرزو میں بکھر گئی ہیں
سنائیں اُس کو وہ لفظ جن کے
حروف بے صوت ہو گئے ہیں
رُلائیں اُس کو اُن آنسوؤں پر
جو خُشک آنکھو ں میں کھو گئے ہیں
گلو گرفتہ اُداس لمحے ، اُجاڑ صورت بکھرتے موسم
وہ بختِ گریاں جو سو گئے ہیں
درِ طلسم صدا کُھلا تو عجب ہے منظر
چہار جانب ہجومِ خلقت ہے مثلِ لشکر
اُسی کی جانب رواں دواں ہیں
برہنہ پا و شکستہ رنگ و غبار بر سر
سفید سائے، سیاہ پیکر
لبوں پہ خواہش کے سبز جنگل، نظر سمندر
صدائیں اتنی ہیں ماند پڑتا ہے شورِ محشر
اُسے سُنائیں تو کیا سُنائیں
کہ اپنی اپنی زباں میں سارے ہمارا قصہ سُنا رہے ہیں
وہ جس کے ہاتھوں میں خواہشوں کا قبول رد تھا
ہر اک کی آواز سُن رہا ہے
درِ طلسمِ صدا کُھلا ہے
کسے پُکاریں؟
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote

Bookmarks