پشتِ پا ماری بسکہ دنیا پر
زخم پڑ پڑ گیا مرے پا پر
ڈوبے اچھلے ہے آفتاب ہنوز
کہیں دیکھا تھا تجھ کو دریا پر
گرد مے نوش آؤ شیخِ شہر!
ابر جھوما ہی جا ہے صحرا پر
یاں جہاں میں کہ شہر کوراں ہے
سات پردے ہیں چشمِ بینا پر
فرصتِ عیش اپنی یوں گزری
کہ مصیبت پڑی تمنا پر
میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی
جینا دوبھر ہوا مسیحا پر
Similar Threads:
Bookmarks