خُود اپنے لیے بیٹھ کے سوچیں گے کِسی دِن
یُوں ہے کہ تجھے بُھول کے دیکھیں گے کِسی دن
بھٹکے ہُوئے پھرتے ہیں کئی لفظ جو دل میں
دُنیا نے دیا وقت تو لکّھیں گے کِسی دن
ہِل جائیں گے اِک بار تو عر شوں کے دَرد بام
یہ خاک نشیں لوگ جو بولیں گے کِسی دن
آپس کی کِسی بات کا مِلتا ہی نہیں وقت
ہر بار یہ کہتے ہیں کہ " بیٹھیں گے کِسی دن !"
اے جان تری یاد کے بے نام پرندے
شاخوں پہ مرے درد کی اُتریں گے کِسی دن ؟
جاتی ہے کِسی جھیل کی گہرائی کہاں تک
آنکھوں میں تری ڈوب کے دیکھیں کے کِسی دِن
خُوشبو سے بھری شام میں جگنو کے قلم سے
اِک نظم ترے واسطے لکھیں گے کسی دِن
سوئیں گے تری آنکھ کی خلوت میں کسی رات
سائے میں تری زُلف کے جاگیں گے کِسی دن !
صحرائے خرابی کی اسی گردِ سفر سے
پُھولوں سے بھر ے راستے نکلیں گے کِسی دن
خُوشبو کی طرح ، مثلِ صبا ، خواب نما سے
گلیوں سے ترے شہر کی گُزریں گے کِسی دن
امجد ہے یہی اب کہ کفن باندھ کے سر پر
اُس شہرِ ستم گار میں جائیں گے کسی دن
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote



Bookmarks