سمجھے تھے میرؔ ہم کہ یہ ناسور کم ہوا

پھر ان دنوں میں دیدۂ خوں بار نم ہوا


آئے بہ رنگِ ابر عرق ناک تم اِدھر
حیراں ہوں میں کہ آج کدھر کو کرم ہوا

کافر ہمارے دل کی نہ پوچھ اپنے عشق میں
بیت الحرم تھا جو سو وہ بیت الصنم ہوا

(ق)

آئی نظر جو گور سلیماں کی ایک روز
کُوچے پر اُس مزار کے تھا یہ رقم ہوا

کاے سرکشاں جہان میں کھینچا تھا ہم نے سر
پایانِ کار مور کی خاکِ قدم ہوا

کیا کیا عزیز و دوست ملے میرؔ خاک میں
ناداں یہاں کسو کا کسو کو بھی غم ہوا





Similar Threads: