چمن میں گل نے جو کل دعویِ جمال کیا
جمالِ یار نے منھ اُس کا خوب لال کیا
فلک نے آہ تری رہ میں ہم کو پیدا کربہ رنگِ سبزۂ نورستہ پائمال کیا
رہی تھی دم کی کشاکش گلے میں کچھ باقیسو اُس کی تیغ نے جھگڑا ہی انفصال کیا
بہارِ رفتہ پھر آئی ترے تماشے کوچمن کو یمنِ قدم نے ترے نہال کیا
جواب نامہ سیاہی کا اپنی ہے وہ زلفکسو نے حشر کو ہم سے اگر سوال کیا
لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نےجو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا
Similar Threads:
Bookmarks