شعلے بھڑک رہے ہیں یوں اپنے تن کے اندر

دوں لگ رہی ہو جیسے گرمی میں بن کے اندر

جو چاہو تم- سو کہہ لو- چپ چاپ ہیں ہم ایسے
گویا زباں نہیں ہے اپنے دہن کے اندر

ق
گل سے زیادہ نازک جو دلبرانِ رعنا
ہیں بیکلی میں شبنم کے پیرہن کے اندر

ہے مجھ کو یہ تعجب سووینگے پانوں پھیلا
یہ رنگ گورے گورے کیونکر کفن کے اندر!

غم نے ترے بٹھایا - اے ماہِ مصرِ خوبی!
یعقوب وار ہم کو بیت الحزن کے اندر

یوں بولتا کہے ہے - سنتے ہو میر انشا!
" ہیں طرفہ ہم مسافر اپنے وطن کے اندر"
٭٭٭




Similar Threads: