ہم لوگ تو ظلمت میں جینے کے بھی عادی ہیںاس درد نے کیوں دل میں شمعیں سی جلا دی ہیںاک یاد پہ آہوں کا طوفاں امڈتا ہوا آتا ہےاک ذکر پہ اب دل کو تھا ما نہیں جا تا ہےاک نام پہ آنکھوں میں آنسو چلے آتے ہیںجی ہم کو جلاتا ہے ہم جی کو جلاتے ہیںہم لوگ تو مدت سے آوارہ و حیراں تھےاس شخص کے گیسو کب اس طور پریشاں تھےیہ شخص مگر اے دل پردیس سدھارے گایہ درد ہمیں جانے کس گھاٹ اتارے گاعشق کا چکر ہے انشا کے ستاروں کوہاں جا کے مبارک دو پھر نجد میں یاروں کو
Similar Threads:
Bookmarks